اداکارہ ثروت گیلانی کے ہاں بیٹی کی پیدائش
اسرائیل کو مزید ہتھیاروں کی ہنگامی فروخت
اسرائیل کو مزید ہتھیاروں کی ہنگامی فروخت
امریکی حکومت نے رواں ماہ میں دوسری مرتبہ کانگریس کو نظرانداز کرتے ہوئے اسرائیل کو ہنگامی بنیادوں پر ہتھیار فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے امریکی محکمہ خارجہ کے حوالے سے کہا کہ ’سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کانگریس کو بتایا کہ انہوں نے دوسری مرتبہ 14 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کے فوجی سامان کی فروخت کی منظوری دی ہے۔‘
سیکریٹری خارجہ کے مطابق اسرائیل کو 155 ایم ایم کے گولے بنانے کے لیے اس فوجی سامان کی ضرورت ہے۔حکمہ خارجہ نے مزید کہا کہ ’اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ پرعزم ہے۔ امریکہ کے قومی مفادات کے لیے اہم ہے کہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل کی صلاحیت کو یقینی بنایا جائے۔‘
’ایمرجنسی کی صورتحال کا تعین‘ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کانگریس کی جانب سے جائزہ لیے بغیر کسی دوسرے ملک کو فوجی ساز و سامان فروخت کیا جائے۔
ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے کہ ایوان نمائندگان کی منظوری کے بغیر امریکی انتظامیہ کو ہنگامی بنیادوں پر ہتھیار فروخت کرنے کی ضرورت پڑی تھی۔
سیکریٹری بلنکن نے اسی نوعیت کا فیصلہ 9 دسمبر کو بھی کیا تھا جس کے تحت اسرائیل کو 10 کروڑ سے زیادہ مالیت کے تقریباً 14 ہزار ٹینک کے گولے فروخت کیے گئے تھے۔
دونوں مرتبہ اختیارات کا استعمال ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب کانگریس کی جانب سے یوکرین کے لیے 106 ارب ڈالر کے امدادی پیکج اور اسرائیل کی قومی سلامتی کی ضروریات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔اسلحے کی فروخت پر ہونے والی تنقید کے ردعمل میں محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ شہریوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم کرنے کے کیے اسرائیل کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔
’ہم اسرائیل کی حکومت پر بھرپور زور دیتے رہتے ہیں کہ وہ نہ صرف بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کرے بلکہ شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے۔‘
محکمہ خارجہ نے کہا کہ ’حماس نے عام شہریوں کو ڈھال بنایا ہوا ہے اور شہری آبادی میں گھلے ملے ہوئے ہیں لیکن اس سے اسرائیل کی ذمہ داری کم نہیں ہوتی اور سٹریٹیجک طور پر لازمی ہے کہ ملٹری آپریشن کے دوران شہریوں اور حماس کے دہشت گردوں کے درمیان فرق کیا جائے۔‘
ایمرجنسی کی صورتحال کو جواز بناتے ہوئے کانگریس کو نظرانداز کرنے کا اقدام غیرمعمولی ہے جس پر پہلے بھی ایوان نمائندگان اعتراض اٹھا چکے ہیں۔
عجیب مخلوق
میں نے انسان سے بڑھ کر عجیب کوئی اور مخلوق نہیں دیکھی۔
اتنا مضبوط ہے کہ جن غموں کا بوجھ اٹھانے کے تصور سے اس کی کمر ٹوٹنے لگتی ہے ان کو اٹھائے اٹھائے عمر گزار لیتا ہے۔
اتنا سخت جان ہے کہ جن صدمات کا سوچ کر اس کی جان جاتی ہے، وہ جب گزر جاتے ہیں تو سہہ بھی لیتا ہے۔
اتنا ظالم ہے کہ جن خوابوں کے بنا جی سکنے کا تصور نہیں کر پاتا ، ان کو اٹھا کر خود باہر پھینکتا ہے، یا اپنے ہاتھوں دفنا دیتا ہے ، دل اور ہاتھ کرچیوں سے بھر جاتے ہیں ، مگر پھر بھی زندگی جیتا رہتا ہے۔
اتنا صابر ہے کہ جن چہروں کو تا عمر نہیں دیکھنا چاہتا ، وقت پڑنے پر انہیں بھی برداشت کر لیتا ہے۔
اتنا بے حس کہ
اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے خوابوں کے تاج محل کو مسمار ہوتا دیکھتا رہتا ہے۔
روح پر گھاؤ کھاتا ہے۔ بدن پر تیر آزماتا ہے۔ پھر بھی مسکراتا ہے۔
ساری توڑ پھوڑ کے بعد بھی زندگی کا سفر جاری رکھتا ہے۔
ہواؤں میں لاکھ تُندی ہو ، وقت کی ٹہنی پر چمٹا رہتا ہے، آخری پتے کی طرح بوسیدہ مگر ارادے کا اٹل____
یہ حوصلہ انسان ہی کے پاس ہے۔ یہ صبر اسی کی میراث ہے ۔ یہ ظرف اسی کا کمال ہے۔ یہ اوج اسی کو نصیب ہے!
بھلے جتنا ہی عجیب کیوں نہ ہو ،اشرف المخلوقات ہے۔
انسان کو بشارت ہو کہ وہ انسان ہے!
شرافت
کبھی شرافت آپ کے حسن سلوک اور بنیادی قدروں پر یقین کا نام تھا۔ اب شرافت کی تعریف اور معیار بدل گیا ہے۔ شرافت کی پیمائش دولتمندی سے مشروط ہے۔ ہم خود کو کہاں لے آئے ہیں۔ انمول لوگ ٹکوں ٹکوں کے دام بکنے لگے ہیں۔
علم منزل ہے، جبکہ تعلیم راستہ ہے۔ اور اس راستے کو جو چیز روشن کرتی ہے وہ تربیت ہے۔ جو کہ ٹھوکر لگنے سے آپ کو بچاتی ہے، آپ کو بنے بنائے معیار سے ادھر ادھر ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔ تربیت ایک خاموش مگر مسلسل عمل ہے جو خون بن کر آپکی رگوں میں دوڑتا ہے۔ ایک دفعہ آپ کا خون آپ کی رگوں میں دوڑنے لگے تو آپ کو کوئی مردہ نہیں کر سکتا ہے۔ یہ تربیت ہی تھی جو یہ سکھاتی تھی کہ محبت کا بھی سلیقہ ہوتا ہے، مگر اس سے بہتر سلیقہ نفرت کرنے کا ہوتا ہے۔ اب ہم محبت اس لیے نہیں کر پاتے کہ ہمیں نفرت کرتا نہیں آتی۔ ہم محبت کرتے ہیں فائدہ حاصل کرنے کے لئیے اور نفرت کرتے ہیں دشمنی پالنے کے لیے۔ ہم نے لفظوں نے لفظوں کے معانی بڑی آسانی سے ختم کر دیئے ہیں۔ تربیت کے بغیر کوئی معاشرہ کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو جائے، نہیں چل سکتا ہے۔ تربیت سکھاتی ہے کہ جتنا دامن ہے بس اسی میں زندہ رہنا سیکھو۔ زندگی سے محبت کرنے کے لیے تربیت چاہیے۔ اور تربیت اس چیز کا نام ہے جب آپ اپنے آپ سے اٹھ کر زندہ رہنا سیکھتے ہیں۔ اگر آپ شرکت کرنا جانتے ہیں اور شریک کرنا جانتے ہیں تو آپ زندگی گزارنے کے فن سے آشنا ہیں۔ اب ہم آپس میں بات چیت نہیں کرتے ۔ ہمارے درمیان سے مکالمہ ختم ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے کئی باتیں تو مکالمے ہی میں طے ہو جاتی تھیں۔ درستی اسی دن سے شروع ہو جاتی ہے جس دن آپ اپنی غلطی کو تسلیم کرلیتے ہیں۔
اچھے دوست
چائے نہیں پیتے
سردیوں کی سرد لمبی راتوں اور گرمیوں کی تپتی گرم دوپہروں میں کوئی دلچسپ ناول نہیں پڑھتے
اگر آپ کھلکھلا کر نہیں ہنستے
کوئل کی کوک اور چڑیوں کی چہکار آپ کے من کو نہیں بھاتی
گیلی گھاس پر ننگے پاوں چلنا آپ کو پسند نہیں
خزاں کے موسم میں گرتے پتے آپ کو پسند نہیں
خود کو دوسروں سے چالاک اور اعلی سمجھتے ہیں
آپ پر بلاوجہ اداسی نہیں چھاتی اور نہ ہی آپ وحشت کا شکار ہوتے ہیں
آپ کو رائگانی کا علم نہیں شعر و ادب سے لگاؤ نہیں
اور اگر خوشی کے موقعہ پر آپ کی آنکھیں نہیں بھیگتی تو پھر
ہم کبھی اچھے دوست نہیں بن سکتے
انسانیت
ایک بچہ دس روپے لے کر پلاؤ والے کے پاس آیا، رہڑی پر ٹھہرے ہوئے لڑکے نے چاول دینے سے انکار کر دیا۔ میں کہنے ہی والا تھا کہ بچے کو چاول دے دو باقی پیسے میں دوں گا کہ اتنے میں پلاؤ والا خود آ گیا اور بچے سے دس روپے لے کر اسے بہت پیار سے شاپر میں ڈال کر دیئے۔ میں نے سوال پوچھا" مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول؟" کہنے لگے" بچوں کیلئے کیسی مہنگائی؟ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں اور میں ان بچوں کو بھی انکار نہیں کرتا جب کہ پانچ روپے تو صرف شاپر اور سلاد کے بھی نہیں لیکن ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا۔ میں چھوٹی چھوٹی چکن کی بوٹیاں بھی دیگ میں ڈالتا ہوں اور وہ ان بچوں کیلئے ہی ہوتی ہیں جو پانچ یا دس روپے لے کر آتے ہیں۔ وہ چاول کے ساتھ یہ چھوٹی سی بوٹی دیکھ کر جب مسکراتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میری نمازیں اب قبول ہوئی ہیں۔ آج کے دور میں امیروں کے بچے پانچ دس روپے لے کر نہیں آتے یہ غریب بچے ہوتے ہیں"
یہ میرے سوال کا جواب کم اور انسانیت کا درس زیادہ تھا۔ یہ محبت کا خالص جذبہ، یہ بچوں سے محبت، یہ غریبوں کا احساس۔۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ اس چاول والے کے چہرے پر مسکراہٹ کیوں بسیرا کرتی ہے۔ اسے دیکھ کر روحانیت کا احساس کیوں ہوتا ہے۔ ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ ہر انویسٹمنٹ اگر دنیاوی فائدے کیلئے کرتے رہیں گے تو آخرت میں ہمارے پلے کیا ہوگا؟ یہاں کچھ ایسی انویسٹمنٹ ضرور کیجئے جس کا منافع وہاں ملے گا جہاں کوئی کسی کا نہیں -
سُنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
خاموشی
میرے الفاظ
سیاہ رنگ کی قید
مرشد۔۔!! میری ذات کا کچھ حصہ باقی بچا ہے کیا..؟؟ میں تو خود ہی بھول گیا ہوں ۔۔!! کہ کب سے سیاہ رنگ کے قفس میں ہوں ۔۔!! یہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔۔!! ایک دہائی گزرنے والی ہے۔۔!! جب سے میں نے زندگی کے رنگوں کو ہاتھ لگا کر نہیں دیکھا ہے۔۔!! اگر غلطی سے لگا بھی لوں تو کچھ ہی لمحوں بعد مجھے اُلجھن ہونا شروع ہوجاتی ہے۔۔!!!میں پھر سے اُسی سیاہ رنگ کی قید میں آجاتا ہوں ۔۔!! شاید یہ میرے اندر کا اندھیرہ ہے۔۔!! جو روشنی سے ڈرتا ہے۔۔!! ممکن ہے یہ میرے بوسیدہ خیالات ہوں۔۔!! جو موسموں کے بدلتے رویوں کو جھیل نہیں پاتے ہیں۔۔!! لیکن اب اِک عمر گزر جانے کے بعد میں اِس رنگ سے بھاگنا چاہ رہا ہوں ۔۔!! مگر یہ سیاہ عشق میرے پاؤں کو کسی زنگ آلود زنجیر کے جیسے جکڑے ہوئے ہے۔۔!! مسئلہ اِس کا بھی نہیں ہے !! شاید میں اِس کے قفس سے نکل بھی جاؤں ۔۔!! لیکن میں اِس سے نکل کر جاؤں کہاں۔۔؟؟؟ میری ذات ۔۔!!! میری ذات کہاں ہے...؟؟🖤🍁