کبھی شرافت آپ کے حسن سلوک اور بنیادی قدروں پر یقین کا نام تھا۔ اب شرافت کی تعریف اور معیار بدل گیا ہے۔ شرافت کی پیمائش دولتمندی سے مشروط ہے۔ ہم خود کو کہاں لے آئے ہیں۔ انمول لوگ ٹکوں ٹکوں کے دام بکنے لگے ہیں۔
علم منزل ہے، جبکہ تعلیم راستہ ہے۔ اور اس راستے کو جو چیز روشن کرتی ہے وہ تربیت ہے۔ جو کہ ٹھوکر لگنے سے آپ کو بچاتی ہے، آپ کو بنے بنائے معیار سے ادھر ادھر ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔ تربیت ایک خاموش مگر مسلسل عمل ہے جو خون بن کر آپکی رگوں میں دوڑتا ہے۔ ایک دفعہ آپ کا خون آپ کی رگوں میں دوڑنے لگے تو آپ کو کوئی مردہ نہیں کر سکتا ہے۔ یہ تربیت ہی تھی جو یہ سکھاتی تھی کہ محبت کا بھی سلیقہ ہوتا ہے، مگر اس سے بہتر سلیقہ نفرت کرنے کا ہوتا ہے۔ اب ہم محبت اس لیے نہیں کر پاتے کہ ہمیں نفرت کرتا نہیں آتی۔ ہم محبت کرتے ہیں فائدہ حاصل کرنے کے لئیے اور نفرت کرتے ہیں دشمنی پالنے کے لیے۔ ہم نے لفظوں نے لفظوں کے معانی بڑی آسانی سے ختم کر دیئے ہیں۔ تربیت کے بغیر کوئی معاشرہ کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو جائے، نہیں چل سکتا ہے۔ تربیت سکھاتی ہے کہ جتنا دامن ہے بس اسی میں زندہ رہنا سیکھو۔ زندگی سے محبت کرنے کے لیے تربیت چاہیے۔ اور تربیت اس چیز کا نام ہے جب آپ اپنے آپ سے اٹھ کر زندہ رہنا سیکھتے ہیں۔ اگر آپ شرکت کرنا جانتے ہیں اور شریک کرنا جانتے ہیں تو آپ زندگی گزارنے کے فن سے آشنا ہیں۔ اب ہم آپس میں بات چیت نہیں کرتے ۔ ہمارے درمیان سے مکالمہ ختم ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے کئی باتیں تو مکالمے ہی میں طے ہو جاتی تھیں۔ درستی اسی دن سے شروع ہو جاتی ہے جس دن آپ اپنی غلطی کو تسلیم کرلیتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment