You will get here many features like news, Books|Jobs Poetry|health and also whatsapp status songs...

عجیب مخلوق


 میں نے انسان سے بڑھ کر عجیب کوئی اور مخلوق نہیں دیکھی۔ 


اتنا مضبوط ہے کہ جن غموں کا بوجھ اٹھانے کے تصور سے اس کی کمر ٹوٹنے لگتی ہے ان کو اٹھائے اٹھائے عمر گزار لیتا ہے۔ 

اتنا سخت جان ہے کہ جن صدمات کا سوچ کر اس کی جان جاتی ہے، وہ جب گزر جاتے ہیں تو سہہ بھی لیتا ہے۔ 

اتنا ظالم ہے کہ جن خوابوں کے بنا جی سکنے کا تصور نہیں کر پاتا ، ان کو اٹھا کر خود باہر پھینکتا ہے، یا اپنے ہاتھوں دفنا دیتا ہے ، دل اور ہاتھ کرچیوں سے بھر جاتے ہیں ، مگر پھر بھی زندگی جیتا رہتا ہے۔ 

اتنا صابر ہے کہ جن چہروں کو تا عمر نہیں دیکھنا چاہتا ، وقت پڑنے پر انہیں بھی برداشت کر لیتا ہے۔ 

اتنا بے حس کہ 

اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے خوابوں کے تاج محل کو مسمار ہوتا دیکھتا رہتا ہے۔

روح پر گھاؤ کھاتا ہے۔ بدن پر تیر آزماتا ہے۔ پھر بھی مسکراتا ہے۔ 

ساری توڑ پھوڑ کے بعد بھی زندگی کا سفر جاری رکھتا ہے۔

ہواؤں میں لاکھ تُندی ہو ، وقت کی ٹہنی پر چمٹا رہتا ہے، آخری پتے کی طرح بوسیدہ مگر ارادے کا اٹل____


یہ حوصلہ انسان ہی کے پاس ہے۔ یہ صبر اسی کی میراث ہے ۔ یہ ظرف اسی کا کمال ہے۔ یہ اوج اسی کو نصیب ہے!

بھلے جتنا ہی عجیب کیوں نہ ہو ،اشرف المخلوقات ہے۔ 

انسان کو بشارت ہو کہ وہ انسان ہے!

Share:

شرافت

 


کبھی شرافت آپ کے حسن سلوک اور بنیادی قدروں پر یقین کا نام تھا۔ اب شرافت کی تعریف اور معیار بدل گیا ہے۔ شرافت کی پیمائش دولتمندی سے مشروط ہے۔ ہم خود کو کہاں لے آئے ہیں۔ انمول لوگ ٹکوں ٹکوں کے دام بکنے لگے ہیں۔


علم منزل ہے، جبکہ تعلیم راستہ ہے۔ اور اس راستے کو جو چیز روشن کرتی ہے وہ تربیت ہے۔ جو کہ ٹھوکر لگنے سے آپ کو بچاتی ہے، آپ کو بنے بنائے معیار سے ادھر ادھر ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔ تربیت ایک خاموش مگر مسلسل عمل ہے جو خون بن کر آپکی رگوں میں دوڑتا ہے۔ ایک دفعہ آپ کا خون آپ کی رگوں میں دوڑنے لگے تو آپ کو کوئی مردہ نہیں کر سکتا ہے۔ یہ تربیت ہی تھی جو یہ سکھاتی تھی کہ محبت کا بھی سلیقہ ہوتا ہے، مگر اس سے بہتر سلیقہ نفرت کرنے کا ہوتا ہے۔ اب ہم محبت اس لیے نہیں کر پاتے کہ ہمیں نفرت کرتا نہیں آتی۔ ہم محبت کرتے ہیں فائدہ حاصل کرنے کے لئیے اور نفرت کرتے ہیں دشمنی پالنے کے لیے۔ ہم نے لفظوں نے لفظوں کے معانی بڑی آسانی سے ختم کر دیئے ہیں۔ تربیت کے بغیر کوئی معاشرہ کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو جائے، نہیں چل سکتا ہے۔ تربیت سکھاتی ہے کہ جتنا دامن ہے بس اسی میں زندہ رہنا سیکھو۔ زندگی سے محبت کرنے کے لیے تربیت چاہیے۔ اور تربیت اس چیز کا نام ہے جب آپ اپنے آپ سے اٹھ کر زندہ رہنا سیکھتے ہیں۔ اگر آپ شرکت کرنا جانتے ہیں اور شریک کرنا جانتے ہیں تو آپ زندگی گزارنے کے فن سے آشنا ہیں۔ اب ہم آپس میں بات چیت نہیں کرتے ۔ ہمارے درمیان سے مکالمہ ختم ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے کئی باتیں تو مکالمے ہی میں طے ہو جاتی تھیں۔ درستی اسی دن سے شروع ہو جاتی ہے جس دن آپ اپنی غلطی کو تسلیم کرلیتے ہیں۔

Share:

اچھے دوست


 اگر آپ نصرت کو نہیں سنتے 

چائے نہیں پیتے

 سردیوں کی سرد لمبی راتوں اور گرمیوں کی تپتی گرم دوپہروں میں کوئی دلچسپ ناول نہیں پڑھتے

 اگر آپ کھلکھلا کر نہیں ہنستے

کوئل کی کوک اور چڑیوں کی چہکار آپ کے من کو نہیں بھاتی

گیلی گھاس پر ننگے پاوں چلنا آپ کو پسند نہیں

خزاں کے موسم میں گرتے پتے آپ کو پسند نہیں

خود کو دوسروں سے چالاک اور اعلی سمجھتے ہیں

آپ پر بلاوجہ اداسی نہیں چھاتی اور نہ ہی آپ وحشت کا شکار ہوتے ہیں

آپ کو رائگانی کا علم نہیں شعر و ادب سے لگاؤ نہیں

اور اگر خوشی کے موقعہ پر آپ کی آنکھیں نہیں بھیگتی تو پھر

 ہم کبھی اچھے دوست نہیں بن سکتے



Share:

انسانیت

 


  


ایک بچہ دس روپے لے کر پلاؤ والے کے پاس آیا، رہڑی پر ٹھہرے ہوئے لڑکے نے چاول دینے سے انکار کر دیا۔ میں کہنے ہی والا تھا کہ بچے کو چاول دے دو باقی پیسے میں دوں گا کہ اتنے میں پلاؤ والا خود آ گیا اور بچے سے دس روپے لے کر اسے بہت پیار سے شاپر میں ڈال کر دیئے۔ میں نے سوال پوچھا" مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول؟" کہنے لگے" بچوں کیلئے کیسی مہنگائی؟ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں اور میں ان بچوں کو بھی انکار نہیں کرتا جب کہ پانچ روپے تو صرف شاپر اور سلاد کے بھی نہیں لیکن ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا۔ میں چھوٹی چھوٹی چکن کی بوٹیاں بھی دیگ میں ڈالتا ہوں اور وہ ان بچوں کیلئے ہی ہوتی ہیں جو پانچ یا دس روپے لے کر آتے ہیں۔ وہ چاول کے ساتھ یہ چھوٹی سی بوٹی دیکھ کر جب مسکراتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میری نمازیں اب قبول ہوئی ہیں۔ آج کے دور میں امیروں کے بچے پانچ دس روپے لے کر نہیں آتے یہ غریب بچے ہوتے ہیں" 


یہ میرے سوال کا جواب کم اور انسانیت کا درس زیادہ تھا۔ یہ محبت کا خالص جذبہ، یہ بچوں سے محبت، یہ غریبوں کا احساس۔۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ اس چاول والے کے چہرے پر مسکراہٹ کیوں بسیرا کرتی ہے۔ اسے دیکھ کر روحانیت کا احساس کیوں ہوتا ہے۔ ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ ہر انویسٹمنٹ اگر دنیاوی فائدے کیلئے کرتے رہیں گے تو آخرت میں ہمارے پلے کیا ہوگا؟ یہاں کچھ ایسی انویسٹمنٹ ضرور کیجئے جس کا منافع وہاں ملے گا جہاں کوئی کسی کا نہیں -

Share:

سُنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

 


سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں 


سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے 


سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی 


سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف 


سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں 


یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے 


ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں 


سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں 


سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی 


سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے 


سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں 


سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی 


جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں 


مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں 


پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے 


کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں 


وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں 


کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں 


بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا 


سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں 


سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت 


مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں 


رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں 


چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں 


کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے 


کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں 


کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی 


اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں 


اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں 


فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

Share:

Pages

Popular Posts

Featured Post

اداکارہ ثروت گیلانی کے ہاں بیٹی کی پیدائش

پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کی نامور اداکارہ ثروت گیلانی اور اداکار وسرجن فہد مرزا کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔ ثروت گیلانی نے انس...

Recent Post

Blog Archive

Find Us On Facebook

Tags

Recent News

Recent

Gadget

Labels

Recent Posts

Label Cloud